KYA MAYYIT KA KHANA KHANE SE DIL MURDA HOTA HAI



 کیا مَیِّت کا کھانا کھانے سے دِل مُردہ ہو جاتا ہے ؟

سُوال : کیا میت کا کھانا کھانے سے دِل مُردہ ہو جاتا ہے ؟
جواب: مَقولہ ہے : ” طَعَامُ الْمَیِّتِ یُمِیْتُ الْقَلْبَ یعنى مَیت کا کھانا دِل مُردہ کر دیتا ہے ۔ “ اِس سے مُراد یہ ہے کہ اِس بات کی خواہش رکھی جائے کہ کوئی مَرے اور اُس کا دَسواں، چالیسواں یا بَرسى آئے تاکہ مجھے کھانا ملے (یعنی جو لوگ مَیِّت کے کھانے کی تمنا میں مسلمانوں کی موت کے منتظر رہتے ہیں ان کا دِل مُردہ ہو جاتا ہے )۔ کسى کى موت پر کھانا ملنے کی خواہش کرنا اچھى بات نہیں۔

                             تعزیت کرنے کے مَدَنی پھول
سُوال : تعزیت کے متعلق کچھ مَدَنی پھول اِرشاد فرما دیجیے ۔
جواب : کسی مسلمان کی فوتگی پر اُس کے لَواحِقِین سے تعزىت کرنے سے پہلے اچھی
اچھی نیتیں کرنی چاہیے تاکہ ثواب بھی ملے مثلاً تعزیت کرنا سُنَّت ہے لہٰذا اِس سُنَّت کو ادا کروں گا ۔ مسلمان کی دِلجوئی کر کے ثواب کماؤں گا ۔ ٭ہمارے یہاں اب عام مسلمانوں سے تعزیت کرنے کا رُجحان کم ہوتا جا رہا ہے ۔ اگر تعزیت کریں گے بھی تو اپنے قریبی عزیزوں سے یا پھر کسی بڑی شخصیت کے اِنتقال پر اُس کے لَواحِقِین سے حالانکہ عام مسلمانوں سے بھی تعزیت کرنی چاہیے ۔ نیز گھر کے کسی ایک فَرد سے تعزیت کرنے کے بجائے تمام اَفراد سے فَردًا فَردًا تعزیت کی جائے کہ سبھی کو صَدمَہ پہنچا ہے ۔ ٭تعزیت کرتے وقت اَلفاظ کے چُناؤ میں اِحتیاط بہت ضَرورى ہے ورنہ جھوٹ بھی ہو سکتا ہے ۔ عموماً مُحتاط ذہن نہ ہونے کی بِناپر تعزیت کے اَلفاظ میں بہت مُبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے مثلاً مجھے آپ کے والِد کے اِنتقال کى خبر کھانا کھاتے ہوئے مِلی ، صَدمے کے سبب میرے ہاتھ سے نَوالہ گِر گیا...میں سونے کى تیارى کر رہا تھا
لیکن جیسے ہی اِنتقال کا پتا چلا تو میرى نیند ہی اُڑ گئى ...اگر واقعی میں ایسا ہوا تھا تو یہ اَلفاظ بولنے میں حَرج نہیں اور اگر ایسا نہیں ہوا تو اب یہ جھو ٹ ہو جائے گا ۔ ٭یہ کہنا کہ مجھے آپ کے والِد کے اِنتقال کى خبر سے سخت دَھچکا لگا ، بہت صَدمَہ ہوا ، مىں بہت اُداس ہو گیا ، مجھے سخت اَفسوس ہے ، یہ تمام جُملے بھى قابلِ غور ہىں کیونکہ اِن میں مُبالغہ پایا جا رہا ہے ۔ عموماً ایسی کیفیت عام لوگوں کی نہیں ہوتی ۔ ہاں! جو قریبی عزیز ہیں مثلاً اولاد بھائی وغیرہ تو ان کی اپنے عزیز کے اِنتقال پر یہ کیفیت ہو جاتی ہے لہٰذا عام اَفراد کو چاہیے کہ تعزیت میں مُبالغہ آرائی کے بغیر جملے کہیں مثلاً مجھے اَفسوس ہوا ، صَدمَہ ہوا وغیرہ لیکن یہ بھی اُسی وقت کہیں جب واقعی صَدمَہ ہوا ہو ، ورنہ تو بسااوقات صَدمے والی کیفیت بھی
نہیں ہوتی ۔ جبھی تو کِھل کِھلا کر ہنس رہے ہوتے ہیں ، ڈَٹ کر کھا پی رہے ہوتے ہیں اور لَواحِقِین سے کہتے ہیں کہ ہم آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں ، اَرے بھائی! آپ کہاں ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں؟ انہیں تو غم کے سبب کھانا پینا بھول گیا ہے جبکہ آپ کھا بھی رہے ہیں ، پی بھی رہے ہیں تو پھر برابر کی شرکت کہاں رہی؟ لہٰذا مُحتاط اَلفاظ میں ہی تعزیت کی جائے مثلاً آپ کے والِد صاحِب ىاآپ کى اَمّى کے اِنتقال پر آپ سے تعزىت کرتا ہوں! صَبر کیجئے گا!اللہ پاک آپ کے اَبو جان یا اَمّى جان کی بے حساب مَغفرت فرمائے ۔ آپ کو صَبر اور صَبر پر اَجر عطا فرمائے ۔



بہارِ شریعت میں ہے : تعزیت میں یہ کہے ، اللہ تعالیٰ مَیِّت کی مَغفرت فرمائے اور اس کو اپنی رَحمت میں ڈھانکے اور تم کو صَبر روزی( یعنی صبر عطا ) کرے اور اس مصیبت پر ثواب عطا فرمائے ۔ ( بہارِ شریعت ، ۱ / ۸۵۲ ، حصہ : ۴ )

Post a Comment

attarpeer94@gmail.com

Previous Post Next Post